چکوال شہر کو سدھر منہاس نامی شخص کے بیٹے چکو نے آباد کیا تھا ، سدھر منہاس کے پانچ بیٹے تھے جن میں سے چکو خان نے چکوال ، ویر خان نے پادشہان ، متا خان نے نوروال، کرن خان نے کرہن جبکہ مرید خان نے قصبہ مرید کی بنیاد رکھی ۔
وادی سندھ کی تہذیب (ہڑپہ کی تہذیب)۔
وادی سندھ کی تہذیب (ہڑپہ کی تہذیب)۔
مؤرخین اور محقیقن کے مطابق وادی سندھ کی تہذیب 3300 قبل مسیح سے 1300 قبل مسیح تک تقریبا 2000 سال جنوبی ایشیاء کے شمال مغربی علاقوں (جن میں چکوال بھی شامل ہے)۔ میں قائم کانسی کے دور کی تہذیب تھی ، وادی سندھ کی تہذیب جنوبی ایشیاء کی قدیم ترین تہذیبوں تہذیب مصر اور میسو پوٹیمیا کے دور کی تہذیب تھی اور باقی دونوں تہذیبوں سے زیادہ وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی تھی ، قدیم وادی سندھ کی تہذیب میں شمال مشرقی افغانستان ، پاکستان کے زیادہ تر علاقے اور شمال مغربی ہندوستان کے علاقے شامل تھے ، اس دور میں بڑے بڑے شہر آباد تھے جن کی آبادی 30000 سے 60000 تک تھی ایک محتاط اندازے کے مطابق تہذیب کے عروج کے زمانے میں تقریبا 50 لاکھ افراد اس تہذیب میں شامل تھے، مکانات زیادہ پکی اینٹوں سے بنائے جاتے تھے شہروں میں پانی کی نکاسی کا بہترین انتظام تھا ، اور شہری آبادی کو پانی کی فراہمی کا بھی مناسب بندوبست تھا ، بڑی بڑی عمارتیں بنائی جاتی تھیں ، وادی سندھ کی تہذیب میں دستکاری ( مہر ، نقش نگاری)۔ اور مختلف دھاتوں (تانبہ ، پیتل ، سیسہ وغیرہ) سے برتن اور مختلف چیزیں بنائی جاتی تھیں اس تہذیب کے اب تک 1000 سے زائد آباد شہر اور بستیاں محکمہ آثار قدیمہ نے دریافت کی ہیں ہڑپہ یا وادی سندھ کی تہذیب کو تلاش کرنے ابتدائی کام برطانوی دور حکومت میں شروع ہوا جو آج تک جاری ہے ، وادی سندھ کی تہذیب کےلوگوں کے مذہب کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ باوثوق ذرائع اس کی تائید نہیں کرتے تاہم اس علاقے میں ہندو مذہب کا رواج پا جانے سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اُن لوگوں کا مذہب بھی ہندو تھا ، تہذہب کے خاتمے کے متعلق مختلف آرا ہیں کچھ مؤرخین کے مطابق تہذیب کے لوگ زیادہ تر دریاؤں کے کنارے آباد تھے چنانچہ موسمی تبدیلیوں ، سیلاب اور آب و ہوا کی تبدیلی اس تہذیب کے خاتمہ کا باعث بنی لوگ ہجرت کرکے ہندوستان کے جنوب مشرقی علاقوں کی طرف گئے اور تہذیب کے آثار کو باقی نہ رکھ سکے کچھ مؤرخین کا کہنا کہ ان علاقوں میں زبردست زلزلہ آیا تھا جس سے تہذیب کے آثار مٹ گئے ، اور کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ اور یہ بات دل کو بھی لگتی ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب اچانک ختم نہیں ہوئی بلکہ لوگوں کو مختلف مسائل کی وجہ سے ہجرت کرنا پڑی اور کچھ اپنے علاقوں میں ہی مقیم رہے اور اب بھی کہیں کہیں اُس تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں
ویدِک دور یا آریائی دور
ہندوں کی کتابوں "رِگ وید ، رامائن ، مہا بھارت ، بھگوت گیتا ، راج ترنگنی " میں ضلع چکوال کے علاقوں کا تذکرہ موجود ہے ، برصغیر کے شمالی علاقوں کی تاریخ کا وہ دور جو تقریبا 1500 قبل مسیح سے 500 قبل مسیح کے درمیان ہے ، اس دور میں ہندوں کے مقدس کتابیں رِگ وید ، یجر وید وغیرہ کے لکھنے کا ذکر ملتا ہے ، آریائی لوگ شمالی علاقوں روس چین وغیرہ کے علاقوں سے آئے تھے اور شمال مغربی ہندوستان میں دریائے گنگا اور دریائے سندھ کے آس پاس کے علاقوں میں رہائش اختیار کی ان کے دور میں لوہے کے اوزاروں سے کام لیا جاتا تھا اور جنگلوں کو کاٹ کر زمین کو زراعت کے قابل بنایا گیا ، اس دور میں مرکزی حکومت کا تصور نہیں تھا بلکہ قبائلی نظام تھا لوگ مختلف قبائل کی شکل میں الگ الگ رہتے تھے ، اور ہر قبیلے کا اپنا نظام تھا ، وید ک دور میں ہندو مذہب کو تقویت دی گئی اور منظم کیا گیا ویدک دور کے خاتمے پر بدھ ازم اور جین مت وغیرہ مذاہب نے ویدک کو چیلنج کیا اور بدھ ازم اور جین مت نے عروج پکڑا
کوشان سلطنت
برصغیر کے شمال مغربی علاقوں میں کوشان سلطنت کا ذکر ملتا ہے (یہ حکومت 350 قبل مسیح سے 1 قبل مسیح تک قائم رہی)۔ یہ لوگ ہندوستان کے رہنے والے تھے تاہم بعد میں ہجرت کرکے یونان میں چلے گئے اور وہاں سے ہی اپنی حکومت کا آغاز کیا اور شمالی ہندوستان کے علاقوں تقریبا بنارس تک فتح کیا اور اپنی حکومت قائم کی کوشان شمال مغربی ہندوستان (موجودہ پاکستان کے شمالی علاقے )۔ کوشان حکومت کے پاس ہونے کی وجہ سے شاہراہ قراقرم اُن کے زیر کنٹرول تھی اور کوشان حکومت نے شاہراہ قراقرم کے ذریعے چین میں بدھ ازم کی تبلیغ کی اور اُس کو کافی وسعت دی ، اگرچہ پنجاب کے بیشر علاقے 375 قبل مسیح کے قریب گپتا سلطنت کے قبضے میں چلے گئے تھے ، تاہم جہلم ، چکوال تلہ گنگ اور اس سے آگے کے شمالی علاقے بدستور کوشان حکومت کے ہی زیر کنٹرول رہے ۔
سکندر اعظم
مشہور یونانی بادشاہ جسے دنیا سکندر اعظم کے نام سے جانتی ہے اپنے والد کی وفات کے بعد نوجوانی کی عمر میں تخت نشین ہوا تھا اور اُس نے دنیا کے اور بہت سے علاقوں کے علاوہ اس علاقے (تلہ گنگ چکوال اٹک پشاور) کو بھی فتح کیا تھا سکندر اعظم نے 336 قبل مسیح میں ان علاقوں پر حملہ کر کے فتح کیا تھا ، سکندر اعظم نے دنیا کے آخری کونے جسے عظیم بیرونی بحر کہتے ہیں تک پہنچنے کی کوشش کی تھی ،
سکندر اعظم نے تقریبا 20 کے قریب نئے شہروں کی بنیاد رکھی جن میں اس کا نام آتا ہے اور ان میں سب سے زیادہ مشہور مصر کا اسکندریہ شہر ہے، پاکستان میں جہلم شہر کی بنیاد بھی سکندر اعظم نے ہی رکھی تھی جو (تلہ گنگ اور چکوال کا قدیمی ضلع ہے) موجودہ ضلع چکوال میں بھی سکندر اعظم نے ایک شہر نسکا اسکندریہ کے نام سے بسایا تھا جس کے آثار دھرابی خانقاہ کے قریب سے ملے ہیں ۔ سکندر اعظم کو چوآ سیدن شاہ سے گزرتے ہوئے یہاں کے گلاب بہت پسند آئے تھے ۔
موریا سلطنت ( اشوک اعظم)۔
موریہ سلطنت بھی قدیم ہندوستانی عظیم سلطنت تھی یہ موریہ گپتا خاندان کی حکومت تھی جو 322 قبل مسیح سے 180 قبل مسیح تک قائم رہی۔ شمالی پنجاب کے موجودہ علاقے (خصوصا جہلم چکوال، تلہ گنگ ، ٹیکسلا ، راولپنڈی ، اٹک وغیرہ) 272 قبل مسیح سے 232 قبل مسیح تک اشوک اعظم کی سلطنت کا حصہ رہے اور اس کے بعد بھی تقریبا 180 قبل مسیح تک موریا سلطنت میں شامل رہے ۔ اشوک اعظم نے چوآ سیدن شاہ کے قریب بدھ ازم کا سٹوپا بھی تعمیر کرایا تھا ،
موریا سلطنت کے بانی چندرگپتا کا ایک وزیر بھون کا وشنو گپت المعروف چانکیہ کوٹلیہ تھا،
سلطان محمود غزنوی
مشہور مسلمان مجاہد بادشاہ سلطان محمود غزنوی اس علاقہ میں 1013ء کو داخل ہوا اور ضلع چکوال کے مشہور قلعہ نندنہ کو فتح کیا والئی ملوٹ راجہ مل نے سلطان محمود غزنوی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا ، راجہ مل جنجوعہ قوم کا جد امجد تھا، راجہ ملک کے دو بیٹوں بیر اور جودھ کی نسل آج بھی ضلع چکوال میں موجود ہے ۔ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17 حملے کیے اور پورے ہندوستان میں اسلام کو پھیلا دیا ۔ سلطان محمود غزنوی کے ساتھ ہی اعوان قوم کے جد امجد قطب شاہ اس علاقے میں جہاد کرتے ہوئے آئے اور راجپوتوں اور جنجوعوں کو شکست دے کر علاقے پر قبضہ کیا اور اسلام کی تبلیغ شروع کی اور بہت سے راجپوتوں کو مشرف بہ اسلام کیا بعد ازاں قطب شاہ نے یہاں مستقل رہائش اختیار کی اور یہاں ہی مقامی خواتین سے شادیاں کیں اور اُن سے قطب شاہ کے 6 بیٹے پیدا ہوئے جن کی اولاد اس پورے علاقے میں پھیل گئی خصوصا (تلہ گنگ ، خوشاب ،اٹک ، فتح جنگ ، راولپنڈی، چکوال، میانوالی اور سرگودھا) میں۔ تلہ گنگ کا قدیمی نام بھی اعوان قوم کے نام سے ''اعوان محل'' تھا ۔
مغلیہ دور حکومت(ظہیر الدین بابر)۔
مغل خاندان کی ابتداء بابر بادشاہ سے ہوتی ہے جن کا پورا نام ظہیر الدین بابر تھا، بابر کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے عظیم ترک فاتح تیمور سے جا ملتا ہے اور ماں کی طرف سے مشہور جنگجو منگول حکمران ''چنگیز خان'' کے دوسرے بیٹے چغتائی سے ملتا ہے ، بابر نے اس علاقے پر تقریبا 1526ء میں کنٹرول حاصل کیا با بر "کلرکہار" میں چار مرتبہ آیا اور تقریبا 6 ماہ تک کلرکہار میں قیام کیا اور کلرکہار کو عارضی پایہ تخت بنایا، بابر نے کلرکہار میں ایک باغ لگوایا تھا جس کا نام باغ صفا رکھا ، اور چٹان کو تراش کر ایک تخت بنوایا تھا ، جو آج بھی تخت بابری کے نام سے کلرکہار میں جھیل روڈ پر موجود ہے ، بابر نے علی پور داخلی تھرچک یونین کونسل بھرپور کے نمبر دار قاضی میراں بخش کو قاضی خاندان کا لقب عطا کیا تھا، عابد حسین منہاس کی انسائیکلو پیڈیا آف چکوال کے مطابق بابر نے کالک داس کو چکوال کے چھے مواضعات (موہڑہ شیخاں ، رام شینا، رتہ ، رہنہ ، بھٹی گجر ، جبیر پور اور منوال ) عطاء کیے تھے بابر نے علاقہ دھنی کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جن میں سے دو حصے قوم مغل کسر ، دو حصے قوم مائر منہاس اور ایک حصہ قوم کہوٹ قریش کو دیا گیا ۔ مغل بادشاہ ہمایوں نے کالک داس کو باغ صفاء کی نگرانی پر معمور کیا تھا ، کالک داس بھون کے گڈھوک راجپوت خاندان کا جد امجد تھا، 1623ء میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے بھون کے قاضی حسام الدین کو قاضی القضاۃ کے عہدہ پر مقرر کیا تھا ، مغلیہ دور حکومت میں ہندوستان نے بہت ترقی حاصل کی ، خصوصا اُن کا فن تعمیر بہت دلکش تھا جو آج بھی تاج محل، دہلی جامع مسجد ، قطب مینار، بادشاہی مسجد لاہور وغیرہ سینکڑوں جگہ دیکھا جا سکتا ہے تقربیا 200 سال تک مغل خاندان نے انتہائی خوبصورت اور مضبوط حکومت قائم رکھی لیکن بعد ازاں بادشاہ محمد شاہ کے دور میں 1719ء میں حکومت کی گرفت کمزور ہوگئی اور شمالی ہندوستان (بشمول تلہ گنگ ، چکوال)۔ پر مراٹھوں / مرہٹوں نے قبضہ کرلیا ،
مراٹھہ یا مرہٹہ سلطنت
مراٹھہ سلطنت کی ابتداء شیوا جی مہاراج نے 1674ء میں رکھی یہ مراٹھی زبان بولنے والے مہاراشٹرا کے ہندو قبائلی جنگجو تھے ، جنہوں مغلیہ مسلم حکومت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور ان ہی کی وجہ سے بالآخر مغلیہ دور حکومت انگریزوں کے آنے سے بالکل ختم ہوگیا ، مراٹھہ دور حکومت کو بالا جی نے بہت ترقی اور وسعت دی اور بام عروج تک پہنچایا ، مرہٹوں نے افغانستان کی طرف پیش قدمی کی کوشش کی لیکن افغان حکمران درانیوں نے ان کو شکست دے دی جس سے مرہٹے افغانستان میں داخل نہیں ہوسکے مرہٹوں نے 1761 میں مغل حکومت کو ختم کرکے اپنے پیشوا وشوا سرا کو دہلی کے مغلیہ تخت پر بٹھانے کی منصوبہ بندی کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے ۔
خالصہ راج یا سکھ حکومت
خالصہ راج کی ابتداء مغلیہ دور حکومت میں ہی ہوئی جبکہ مغلیہ حکومت کمزور ہو چکی تھی ، راجہ رنجیت سنگھ ریاست کا پہلا حکمران بنا ، جس کا اعلان بیساکھی میلہ کے موقع پر پنجاب کی حکومت کا سربراہ بنا کر کیا گیا،1801ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کا آغاز ہوا مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جلد ہی اپنی فوج کو جدید تربیت ، توپ خانے اور اسلحہ کا استعمال کرتے ہوئے ترقی دی ، رنجیت سنگھ کی موت کے بعد خالصہ حکومت داخلی انتشار اور سیاسی بد انتظامی کا شکار ہوگئی اور 1849ء کو ختم ہوگئی اور انگریز سکھوں کو شکست دے کر پورے علاقے پر قابض ہوگئے برصغیر پاک و ہند میں یہ سب سے آخری سلطنت تھی جو انگریزوں نے ختم کی ۔ سکھ دور حکومت میں تحصیل چکوال کے علاقہ لنڈی پٹی کا حاکم چتر سنگھ تھا ، ضلع چکوال میں موجود قلعہ مکھیالہ اور قلعہ کسک کو رنجیت سنگھ نے فتح کیا تھا ۔ سکھوں کے رہنما چرٹ سنگھ نے پوٹھوہار کے علاقوں کو فتح کرنے کے بعد قلعہ روہتاس کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا تھا ، سکھ دور حکومت میں بھون کے قریب ایک قلعہ گٹھانوالہ تعمیر کیا گیا تھا ، مؤرخین کے مطابق ضلع چکوال کے موجودہ علاقوں میں سب سے زیادہ تباہی سکھ دور میں ہوئی ۔ کلرکہار کے جنرل ہری سنگھ نلوہ نے صوبہ سرحد افغانستان سے چھین کر پنجاب میں شامل کردیاتھا،
انگریز دور حکومت
ایسٹ انڈیا کمپنی ایک تجارتی کمپنی تھی جس نے ہندوستان میں مغلیہ دور حکومت کو بڑی چالاکی سے ختم کیا اور تقریبا 7 تک جنگ لڑی گئی تاہم 1849ء کو انگریز مکمل ہندوستان پر قابض ہوگئے ایسٹ انڈیا کمپنی 1730ء کے قریب ہندوستا میں داخل ہوئی اور آہستہ آہستہ پورے ہندوستان پر قابض ہوگئی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد 1858ء کو ایسٹ انڈیا کمپنی کو ختم کردیا گیا اور حکومت براہ راست برطانوی گورنمنٹ کو سونپ دی گئی اُس وقت برطانیہ میں ملکہ وکٹوریہ کی حکومت تھی چنانچہ ملک وکٹوریہ ہی ہندوستان کی بھی حکمران ٹھہری۔ انگریز دور حکومت میں چکوال ضلع جہلم میں شامل تھا ۔ انگریزوں کی حکومت قیام پاکستان 1947ء تک قائم رہی ۔ انگریز دور حکومت میں دو عظیم جنگیں لڑی گئیں جنگ عظیم اول(1914ء سے 1918ء تک) اور جنگ عظیم دوم (1940ء سے 1945ء تک)۔ ان جنگوں کے دوران تحصیل چکوال سے بہت سے نامور فوجیوں نے انگریز فوج میں شمولیت اختیار کرکے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جنگ عظیم اول 1914ء میں ڈب کے صوبیدار خداداد خان منہاس نے برصغیر پاک وہند کا پہلا وکٹوریہ کراس حاصل کیا ۔ صوبیدار خداداد خان منہاس کو یہ وکٹوریہ کراس ہولی بیک بیلجیم کے میدان میں شجاعت و بہادری کے جوہر دکھانے پر ملا تھا ۔ برطانوی فوج میں کمیشن حاصل کرنے والے پہلے مسلمان جنرل محمد اکبر خان رنگروٹ تھے جن کا تعلق چکوال شہر سے تھا جنرل اکبر خان کی تصاویر آج بھی برطانوی نیشنل گیلری میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ جنرل اکبر خان کی والدہ کی وفات کے موقع پر برطانوی اخبار نے سرخی لگائی تھی
The mother of six generals died.
''چھے جرنیلوں کی ماں فوت ہوگئی'' ۔
قیام پاکستان کے بعد
برطانوی دور حکومت میں تحصیل چکوال ضلع جہلم کا حصہ تھی ۔1891 کی مردم شماری کے مطابق تحصیل کی کل آبادی 164912 تھی ، 1947ء میں مسلم آبادی کی اکثریت نے تحریک پاکستان کی حمایت کی 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد ہندو اور سکھ ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے اور بہت سے مسلمان ہندوستان سے ہجرت کرکے چکوال اور بھون میں آباد ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی چکوال 1985 تک ضلع جہلم کا حصہ رہا اور 1985ء کو جنرل ضیاء الحق نے چکوال کو ضلع کا درجہ دے دیا، جبکہ نواز شریف کے دور حکومت 1992ء میں چکوال سے موٹروے کو گزارا گیا موٹروے کے تین انٹر چینج کلر کہار ، بلکسر اور نیلہ ضلع چکوال کی حدود میں ہیں ، جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں چکوال میں کلرکہار اور چوآ سیدن شاہ کے درمیان 3 بڑی سیمنٹ فیکٹریاں (پاکستان سیمنٹ ، ڈی جی سیمنٹ، اور بیسٹ وے سیمنٹ) لگائی گئیں اسوقت اپریل 2020ء ضلع چکوال میں قومی اسمبلی کی دو سیٹیں این اے 64 اور این اے 65 ہیں ۔ جبکہ پنجاب اسمبلی میں چکوال کی 4 سیٹیں پی پی 21 ، پی پی 22 ، پی پی 23 ، اور پی پی 24 ہیں (قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی مکمل تفصیل کے لیے ممبران قومی اسمبلی اور ممبران صوبائی اسمبلی کے پیج پر جاکے دیکھیں)۔ ضلع چکوال کی کل آبادی : 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 1495982 نفوس پر مشتمل تھی جبکہ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع کی کل آبادی 1083725 تھی۔ ضلع کا کل رقبہ 6524 مربع کلومیٹر ہے اس حساب سے ضلع چکوال میں 166 افراد فی مربع کلومیٹر پر رہائش پذیر ہیں اور اگر تحصیل چکوال کو دیکھا جائے تو 2017ء کی مردم شماری میں تحصیل چکوال کی آبادی 656978 نفوس پر مشتمل تھی جبکہ 1998ء کی مردم شماری میں تحصیل کی کل آبادی 475500 افراد پر مشتمل تھی ، تحصیل چکوال کا کُل رقبہ 2193 مربع کلومیٹر ہے اس حساب سے تحصیل چکوال میں 299 افراد فی مربع کلومیٹر پر رہائش پذیر ہیں۔
No comments:
Post a Comment