کلرکہار کے قدیم نام کے بارے میں مؤرخین کی مختلف آراء ہیں مغل بادشاہ بابر نے اپنی کتاب تزک بابری میں کلرکہار کا نام "کلدہ کنارہ" لکھا ہے، جبکہ جنرل کننگھم کے بقول اس کانام "شاکلہا" تھا ، اور بعض مؤرخین کے نزدیک "کلو کہر" بھی بتایا گیا ہے ۔ کلرکہار ایک خوبصورت تاریخی اور سیاحتی مقام ہے اور ضلع چکوال کی تحصیلوں کا بہترین سنگم بھی ۔ کلرکہار سے چکوال 29 کلومیٹر ، چوآ سیدن شاہ 29 کلومیٹر جبکہ تلہ گنگ 35 کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے ۔ تحصیل کلر کہار رقبے کے لحاظ سے چوتھی اور آبادی کے لحاظ سے ضلع چکوال کی تیسری بڑی تحصیل ہے ۔
کلرکہار کی قدیم تاریخ کے بارے میں مزید مفید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں
قیام پاکستان کے بعد
کلر کہار پہلے تحصیل چکوال کا حصہ تھا تاہم بعد میں اسے الگ تحصیل کا درجہ دے دیا گیا ۔ اس وقت تحصیل کلرکہار میں ایک میونسپل کمیٹی کلرکہار اور 7 یونین کونسلیں اور ان میں شامل متعدد دیہات ہیں ۔ کلرکہار سیاحتی حوالے سے ایک تاریخی مقام تو تھا ہی لیکن 1992 ء میں نواز شریف دور میں یہاں موٹروے کا انٹرچینج بنایا گیا ، جس سے کلرکہار میں سیاحوں کو پہنچنا مزید آسان ہوگیا پھر مشرف دور میں سیمنٹ فیکٹریاں لگائی گئیں جس سے کلرکہار کو مزید شہرت ملی، کلرکہار اپنی خوبصورت جھیل ، جنگلی موروں کا مسکن ، مغل بادشاہ بابر کے تخت بابری اور باغ صفا ، اور بابا فرید الدین گنج شکر کے چوآ اور بابا آہو باہو کے دربار کے حوالے سے ملک بھر اور ملک سے باہر بھی مشہور ہے، کلرکہار میں ایک فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال پاکستان ایئر فورس کا سنٹر اور سائنس کالج بھی موجود ہے ۔2017ء کی مردم شماری کے مطابق تحصیل کلرکہار کی کل آبادی 169660 افراد پر مشتمل تھی ۔ جبکہ 1998 کی مردم شماری کی مطابق تحصیل کلرکہار کی آبادی 122548 تھی ، تحصیل کلرکہار کا کل رقبہ 830 مربع کلومیٹر ہے ، اس حساب سے تحصیل کلرکہار میں 204 افراد فی مربع کلومیٹر پر آباد ہیں
No comments:
Post a Comment