19.3.20

ہر چند کہ لائے تھے جگر چیر کے موتی ۔ خمار میر زادہ



ہر چند کہ لائے تھے جگر چیر کے موتی
اک ماں نے بلکتے ہوئے بچوں کے لیے شب
ہر رنگ جماتے ہیں یقیں تاب بدن کا
دہلیز محبت سے سمیٹے ہیں ہمیشہ 
خاموشی کہے گی خلش جاں کا فسانہ
ظلمت کدہ فکر میں تاباں ہیں ازل سے
کافی سے زیادہ ہے یہ تاوان جنوں کا
ہوجائیں گے مجھ ایسے سیہ کار کی خاطر
ارزاں ہی رہے نالہ شب گیر کے موتی
بیچے کسی بازار میں توقیر کے موتی
ان خواب سے ہونٹوں پہ اساطیر کے موتی
تارے کسی شیریں کے کسی ہیر کے موتی
پلکوں سے چنے جائیں گے تاثیر کے موتی
غالب کے کہیں میر تقی میر کے موتی
ہیں کاسئہ زانو میں جو زنجیر کے موتی
بخشش کا وسیلہ غم شبیر کے موتی
چکوال کے معروف شاعر خمار میر زادہ کی نظم

No comments: